’یومِ علی کا جلوس جمعہ الوداع کراچی
چہرے پر شدید غصّہ، آنکھوں میں بھرپور ردعمل، آواز میں سنگین دھمکی ، گردن کی رگیں پھولی ہوئی، ماتھے پر سلوٹیں ، تنی ہوئی بھنویں شدت جذبات سے سرخ گال۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے والے اس شخص کے ویڈیو کلپ اور اس کے پس منظر میں کھڑے ہوئے ہجوم کی جانب سے اس کی حمایت اور تائید میں بلند ہونے والے نعرے اور شور کسی کو بھی پریشان اور خوفزدہ کرنے کے لئے کافی تھے مگر اس سب نے خوفزدہ اور پریشان کرنے کی بجائے غمزدہ اور اداس کر دیا۔
تسلی تو اپنے آپ کو یہی دی کہ درحقیقت کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی (جبری) بندش کی وجہ سے یہ ردعمل دراصل لوگوں کی بڑھتی ہوئی مالی پریشانیوں اور معاشی ذمہ داریوں کا مظہر ہے۔
اس شخص اور اس کے حامیوں کی تشویش و پریشانی کچھ اور ہے، غصّہ کسی اور پر ہے اور نکل کہیں اور رہا ہے مگر 40 سیکنڈ سے بھی کم دورانیے کے اس کلپ نے ذہن کو 40 برس پیچھے دھکیل دیا۔
یہ شہر اور اس کے رہنے والے لوگ جیسے آج اس کلپ میں دکھائی دیے ایسے ہرگز نہیں تھے۔
میں اسی کراچی کے وسطی علاقے ناظم آباد میں پیدا ہوا۔ وہ (اس وقت کے) ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس، جنگ گروپ کے نیوز ایڈیٹر ظفر رضوی کا گھر تھا۔ ابّی (ظفر رضوی) ملک کے نامور صحافی تھے۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے تھے اور اپنے سیاسی رجحانات کی وجہ سے قطعاً مذہبی نہیں تھے۔ فقہی سرگرمیوں اور رسومات سے انھیں کوئی رغبت یا دلچسپی نہیں تھی۔
امّاں (والدہ) ایک روایتی عزادار شیعہ ضرور تھیں مگر ہمارے گھر، محلّے اور شہر کا ماحول قطعاً مذہبی نہیں تھا اور شاید انھی وجوہات کی بنا پر گھر ہو یا محلہ ، شہر ہو یا مضافات ، کہیں دور دور تک فرقہ واریت ، عدم برداشت یا طاقت و تشدد کا نام بھی نہیں سنا تھا۔
ہوش سنبھالا تو محلّے بھر میں 12 ربیع الاوّل کے میلاد پر تقسیم کیا جانے والا مال پوڑہ ، محرم کی مجلس کی شیرمال ہو یا صفر کے جلوس کا دودھ کا شربت ، گیارہویں شریف کی بالو شاہی ہو یا رمضان المبارک میں مسجد کی افطار کے پکوڑے، سب کچھ سانجھا اور مشترک تھا۔
سنّی مسجد کی افطار میں پکوڑے اور سموسے زیادہ اچھے ہونے کی اطلاع پر تمام شیعہ بچے بھی اس مسجد میں روزہ افطار کرنے بے دھڑک جاسکتے تھے۔